rohani markaz

علم الجفر

جن قوموں کا حال تاریخ کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے۔ اُن میں سے زمانہ قدیم میں رُومیوں اور پارسیوں کی علوم فلسفہ اور حکمت کی طرف خاص توجہ تھی۔ ان قوموں کی سلطنتیں بہت وسیع اور با عظمت تھیں۔ ان میں علم نجوم اور سحر کا رواج بیش ازبیش رہا ہے۔ اُ س زمانہ میں یہ علوم فلسفہ اورحکمت میں سے شمار کیے جاتے تھے۔ رُومیوں کے بعد اور پارسیوں سے پہلے کلدانیوں اور سریانیوں اور قبطیوں کو ان علوم میں پورا کمال حاصل تھا۔ انہی قوموں سے یہ علوم یونانیوں اور پارسیوں نے سیکھے قبطی ان علوم میں سب سے تیز تھے۔ چنانچہ فرعون اور حضرت موسٰی کے حالات اس کے شاہد ہیں۔ اور علاوہ ازیں قرآن کریم اور بھی واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے سحری علوم کا بہت رواج تھا اور دُدنیا بھر میں ساحر موجود تھے۔ ابنِ خلدون لکھتا ہے کہ۔ جب مسلمان نے فتوحات کیں تو فلسفہ وحکمت اور سحری علوم کا ذخیرہ ایرانیوں اور یونانیوں سے انہیں ہاتھ لگا چونکہ شریعت اسلامی نے علوم سحر کو حرام قراردیا۔ اس لیے زمانہ اسلام میں یہ علوم نسیا منسیا ہوکررہ گئے۔ پھر بھی ان میں سے کچھ مسائل سینہ بسینہ لوگوں کو پہنچتے رہے۔ مسلمانوں میں جب علمی تحقیق کا زمانہ آیا تو اُنہوں نے سحری کتابوں فلاحتہالنبصیہ جو علم نباتات کی صخنیم کتاب تھی۔ جب ترجمعہ کیا گیا تو اعمال سحر اور روحانیت فلاحت کے بابوں کا ترجمعہ نہ کیا گیا۔ بلکہ اس میں سے صرف نباتات کی روئیدگی، نشوونما، ترقی وتکمیل اور خرابیوں کے ازالہ، نیز بونے کی تدابیر وعوارض کا ترجمعہ کر لیاگیا۔ ابن العلوام نے جو ترجمعہ کیا اس سے طلسم و تماثیل موژنباتات پر بالکل پردہ پڑا رہا اور بھی جن کتابوں کا ترجمعہ کیا گیا چنا نچہ اس فن پر جو کتابیں ترجمعہ کی گئیں وہ حروف اور اعداد کے پر اسرار رازوں اور کواکب کے اثرات پر مشتمل تھیں۔ مثلا مصاحب کو اکب سبعہ اور کِتاب طمطہ ہندی وغیرہ۔ اس کے بعد جابرین حیان نے ان مسائل پر جتنی کتابیں لکھیں مسلمہ بن احمد اممجریطی نے جو علم ریاضی میں کمال رکھتا تھا ان مسائل کا خلاصہ کیا اور رغایت الحکیم، کتاب لکھی۔ امام فخر الدین رازی نے سر مکتوم نام کی کتاب لکھی۔ تاریخ میں وہ بھی اس فن کے امام گنے گئے ہیں۔ جس وقت مسلمانو ں میں صوفیا کا زمانہ شروع ہو چکا تھا۔ اس شوق مین مختلف قسم کی ریاضتیں اور مجاہدے کئے جارہے تھے۔ کہی حواس کے حجابات درمیان سے اُٹھا کر خوراق قوتیں پیدا رکریں۔ چنانچہ اس فن کی کتابیں اور اصطلا حیں مرتب کی گئیں اور وہ کمال پیدا کیا کہ سابقین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ امام بونی کی کتاب سمس المعارف ا ن مسائل کی ایک صنحم کتاب ہے۔ چنانچہ حروف کے اسرار رموز کے لیے جو کو ششیں اور ریاضیتں کی گئیں تو یہ نتیجہ نکالاگیا کہ ارواح فلکی وطبائع کو کسی مظاہر آسمان الٰہی ہیں۔ چونکہ اسرا ر حروف تمام اسماء الٰہی میں جاری وساری ہیں۔ اس لیے تمام مخلوقات اور مکتوبات می بھی اسرار الحروف پیدا ہوا چنانچہ انہوں نے اسماء حسنٰی اور کلمات الٰہیہ کے ذریعے سے جن میں پُر اسرار حروف کی اُن پوشیدہ قوتوں کا پتہ چلایا، جو امزجہ حروف، عنا صر اور ارواح فلکی سے مل کر عالم سفلی میں انصالی یا انفعالی تصرف پیدا کرتی ہیں۔ صوفیوں میں اس امرکا اختلاف تھا کہ آیا یہ تصرف امزجہ حروف کے ذریعہ سے ہوتا ہے یا کسی اور سبب سے؟بعض کہتے تھے کہ حروف اپنے عنصری کے ذریعہ کام کرتے ہیں بعض کہتے تھے کہ حُروف جو کچھ کام کرتے ہیں۔ وہ نسبت عددی کی وجہ سے کرتے ہیں گویا نسبت عددی مؤثرمتصرف ہے۔ اسی وجہ سے حروف کی قوتیں معلوم کرنے کی کوششں کی گئی۔ چنانچہ ابجد قائم کی گئی اور اعداد کی مناسبت سے اُن کی باہیمی نسبت وتالیف کا پتہ لگایاگیا مثلا ب ک ر عدد ۲ کے مراتب ہیں۔ پہلا حروف اکائی کا ہے۔ دوسرادہائی کا اور تیسرا سیکڑے کا۔ اعداد قائم ہونے کے بعد حروف کی ترقی اور صنعف کا معلوم کرنا آسان ہوگیا۔ مثلاب کی ترقی د میں ہے اس لیے کہ ۲ کی بجائے ۴ ہوگیا۔ او ب کا نقصان الف میں ہے اس لیے ۲ کی بجائے ایک رہ گیا۔ یہ علم الحروف کا پہلا زینہ ہے۔ اگر آپ حروف کی قوت معلوم کرنا چاہیں تو اس حروف کے اعداد پر غور کریں۔ ان حروف کے اعداد کی جو باہمی نسبت ہے۔ وہی ان قوتوں میں بھی محفوظ ہے۔ علمائے اسماء الٰہی میں بھی اُن کے اوفاق کے ذریعہ سے نسبت سرحرفی یا سرعددی کی گونا گوں حسابی پیچدگیاں ایسی پیدا کیں اور اتنے دقیق مسائل پیدا کیے کہ عام ذہین کی وہاں تک رسائی ہی انہیں یہی وجہ ہے کہ یہ علم قبیل ازقیاس نہیں رہا بلکہ اس کا سمجھنا ذوق اور کشف پر منحصر ہے۔ امام بونی اور ابن عربی کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو وہ بھی یہی لکھتے ہیں کہ علم الحروف کا سمجھنا مشاہدہ اور تو فیق الٰہی پر منحصر ہے جہاں تک میرا تجربہ اور تحقیق ہے میں خود اس امرکا قائل ہوں کہ انسان کا ذہن اور اس کی رُوحانی قوتیں بہت تیز اور ارفع ہوں تو ان علُوم کو سمجھنا سکتا ہے۔ ورنہ نا ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ ہر کہ ومہ کے بس کی بات نہیں۔ وہ لوگ جو اس میدان میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان حُروف اور اسمائے مرکبہ سے عالم طبیعت میں تصرف پیدا کرنا اور عالم طبع کا اس سے متاثر ہونا بالکل یقنی امر ہے جس سے کوئی صاحب نظر انکا رنہیں کر سکتا۔ اکثر صوفیا کے عمل سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ خود اپنا علم اور اس کی وسعت اور تجربات بھی سامنے ہے۔ حروف کی قوت، فلکی اثرات، اعدادی نسبت اور طلسم کی رُوحانیت کو کھچینے والے بخورات کے ذریعہ معمعول پر جو عمل کیا جاتا ہے وہ گویا طبائع سفلی میں آمیز کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بے معنی طریقہ نہیں ہوتا بلکہ حیرت انگیز حسابی تبدیلیاں اپنے اندر رکھتا ہے۔ ایسی تبدیلیاں جن کی وجہ سے تاثیر کا قائل ہوئے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ نقش یا لوح یا طلسم ایک ایسا خمیر ہوتوتا ہے جو طبائع اربعہ کے مرکب سے تیا ر کیا ہوا ہوتا ہے اور دوسری طبع میں مل کر اُ ن کی حالت کو بدل دیتا ہے۔ اس لیے ارباب عمل کا یہ کام ہوتا ہے کہ افلاں کی رُوحانیت کو اتار کر اور رصو رجسمانیہ سے ربطہ دے کر یا نسبت عدد یہ سے ملا جلا کر ایک خاص مزاج پیدا کریں۔ جس کا اظہار طبیعت کے بدلنے کے لیے خمیر کا کام دے۔ وہی خمیر جو اجزائے معدینہ میں کیمیا کرتا ہے۔ جب تک اس امر کے لیے ریا ضتیں نہ کی جائیں، صبر داستقلال سے کا م نہ لیا جائے۔ حروف واعداد کی قوتوں اور نسبتوں کو نہ سمجھا جائے افلاک کے مظاہر کو اکب کو نہ جانا جائے ان علوم سے کام نہی لیا جا سکتا چونکہ قدرت نے ہر چیز میں ایک اثر پیدا کیا ہے۔ اس لیے ان تاثیر وں سے فائدہ اُٹھانا کا فرض ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح امراض کو دُور کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں کی تاثیر سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اس کتاب کے اند راُن چندر ازوں کا انکشاف کیا گیا ہے جو حُروف اسر اعداد کی قوتوں سے وابستہ ہیں۔ حروف کو اعداد میں مرتبہ دینا اور اُسے خاص حسابی عمل میں لانے اور لکھنے کے طریق کو نقش یا لوح بنانا کہتے ہیں۔ نقش ایک ایسا عمل ہے جس سے مراد حروف کی طاقتوں کو مقرر کرکے اعداد میں مخفی کردیاہوتا ہے۔ اور پھر تکسیر اعداد کے مطابق رُوحانیاں کا استخراج کرنا ہوتا ہے تاکہ نتائج صحیح اور جلد برآمد ہوں۔ رُوحانیاں کا استخراج اس لیے کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ۸۲ حرفوں پر بھی رُوحانی مقرر فرمائے ہیں جیسا کہ اور بھی ہر امرپر ملائک مقرر ہیں۔ قرآن حکیم اس کا شاہد ہے۔ اس کتاب میں حصُولِ مقاصد کے لیے کافی عملیات ہیں۔ مقصد کے مطابق عملیات ڈھالنے کے طریقے بھی ہیں۔ کتاب کے تمام اسباق پر حاوی ہو جانے کے بعد کافی حد تک علمِ حاصل ہو جاتاہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ جس نظریہ سے میں نے یہ کتاب ترتیب دی ہے۔ میں اس میں کامیاب ہوچکا ہوں۔ کوئی دقیقہ ایسا نہیں چھوڑا جو مبتدی کے لیے مشکل لانے والا ہو۔